Advertisement

Main Ad

آگ کا دریا اور شعور کی رو :ایک مغالطے کا ازالہ

 

آگ کا دریا اور شعور کی رو : ایک مغالطے کا ازالہ

پروفیسرعامر سہیل
ڈاکٹر محمد الطاف یوسفزئی

اُردو ادب میں اگر قرة العین حیدر کی شخصیت پر بات ہو تو وہ گھوم پھر کر شعور کی رو پر ضرور آتی ہے اور اگر زیر ِبحث اُن کا ناول ”آگ کا دریا“ ہو تو پھر گفتگو کاآغاز ہی شعور کی رو سے ہوتا ہے،گویا شعور کی رو اور قرة العین حیدر لازم و ملزوم ٹھہرے۔یہ ناول اپنی موضوعاتی وسعت، پھیلا اور برتا کے اعتبار سے خاصا پیچیدہ اور متنوع ہے۔ اس ناول میں اُسلوب کی ہمہ گیر صفات اور زمان و مکاں کے تاریخی،ثقافتی اور تہذیبی مظاہر ناول نگاری کے نئے جہانوں کا بلیغ اشاریہ پیش کرتے ہیں۔ قرة العین حیدر کا یہ ناول ہندوستان کی ڈھائی ہزار سالہ سماجی تاریخ کو اس کے ممکنہ مثبت اور منفی پہلوں کے ساتھ اس طرح پیش کرتا ہے کہ اُس کے تمام محرکات اور مضمرات مجسم ہو کر ہمارے سامنے آ جاتے ہیں۔”آگ کا دریا“ ناول کی روایتی حد بندیوں کو توڑ کر اس صنف کی تخلیقی اور تکنیکی وسعتوں کو بھی سامنے لاتا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی کا کہنا ہے:” ’آگ کا دریا‘ میں ہندوستانی تہذیب اور تاریخ کا ایک غیر معمولی اور آفاقی احساس پیش کیا جاتا ہےاور تاریخ اور تہذیب کے باہمی عمل اور ردِعمل کے تسلسل اور انقطاع کا جو شعور اُنھوں نے ” آگ کادریا “ میں پیش کیا اُس کی مثال صرف اُردو ادب ہی نہیں بلکہ تمام ہندستانی فکشن میں نہیں مل سکتی۔

 (١)اُردو زبان و ادب کا یہ منفرد ناول جہاں اپنے موضوعاتی کینوس کی وجہ سے عوام و خواص کی توجہ کا مرکز بنا وہاں اس کے فنی و تکنیکی اور اُسلوبیاتی جہتوں پر بھی ہمارے نقادوں نے اپنی اپنی استعداد کے مطابق خوب لکھا۔اس ناول پر ہمارے نقادوں کی متفرق آرا کے ساتھ ساتھ ایک متفق علیہ رائے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ اس ناول میں شعور کی رو استعمال کی گئی ہے ۔اس وقت اُردو ادب کے دستیاب ذ خیرے میں تقریباً ہر نقاد اس بات کا حامی ہے کہ ” آگ کا دریا“ میں شعور کی رو موجود ہے۔یہ موضوع چوں کہ خاصا اُلجھا ہوا ہے لہٰذا اس کو سلجھانے کی خاطر اگر پہلے یہ دیکھ لیا جائے کہ شعور کی رو اصل میں کیا ہے اور اس کی تعریفی حدود و ثغور کن نکات پر مشتمل ہے توپھر کسی منطقی انجام تک پہنچنا ممکن ہو سکے گا۔علم ِ نفسیات میں بہت سے ایسے نام ہیں جن کی تحقیقات نے فکر ِ انسانی کے نئے نئے در وا کیے انھی میں ایک اہم نام امریکی ماہرِ نفسیات ولیم جیمز(william James) کا بھی ہے۔ولیم جیمز اپنے مخصوص انداز فکر،طرز تحقیق اور اُسلوبِ بیان میں تمام تاریخِ فلسفہ و نفسیات میں قابل ِ قدر مقام کا مالک ہے۔اس عالم اجل کی ہر کتاب علمی حلقوں میں پذیرائی حاصل کرتی رہی لیکن دو تصانیف نے شہرت عام کے ساتھ بقائے دوام کی سند بھی حاصل کی۔ان کتابوں کے نام یہ ہیں

:(1)The principles of Psychology(1890) (2)The Varities of Religious Experience(1902)

محولہ بالا کتابوں کو اُردو داں طبقے میں بھی قبول ِ عام حاصل ہے۔دوسری کتاب کا ترجمہ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم نے ” نفسیاتِ وارداتِ روحانی“ کے نام سے کیا جبکہ پہلی کتاب(اُصولِ نفسیات) اپنی ضخامت کی وجہ سے مکمل ترجمہ تو نہیں ہو سکی البتہ اس کے مختلف ابواب اُردو میںترجمہ ہوتے رہے ہیں۔ولیم جیمز نے اپنی اسی پہلی کتاب ” اُصول نفسیات“ کے باب نہم میں پہلی مرتبہ” شعور کی رو“ کو متعارف کرایا ۔یہ اصطلاحشعور کی رو) بھی اسی فاضل کی خودوضع کردہ ہے۔ ابتدا میں اس اصطلاح کا دائرہ کار نفسیات کی دنیا تک محدود تھا پھر رفتہ رفتہ ادب،فلسفہ، مصوری اور دیگر علوم وفنون میںاس کا عمل دخل عام ہوتا گیا تاہم اس اصطلاح کا اصل جوہر ہر جگہ اپنی معنوی خوبیوں کے ساتھ موجود رہا ہے۔ ولیم جیمز کے نزدیک شعور کی رو کا مفہوم کچھ اس قسم کا ہے:''The stream of our thought is like a river. On the whole easy simple flowing predominates...But at intervals an obstruction, a set-back, a log-jam occurs,stops the current, creates an eddy, and makes things move the other way.”

 

(2)یہ محض ایک تعارفی بیان ہے،اس کی مزید وضاحت کے لیے درج ذیل تکنیکی مظاہر کو پیش ِ نظر رکھنا ضروری ہے:'' Stream of consciousness ,from a psychological perspective,describes meta phorically the phenomenon-the continuous and contigiuos flow of sensations,impressions,images,memories and thoughts-experienced by each person,at all levels of consciousness and which is generally associated with each person's subjectivity,or sense of self-''(3)یہ علمی اصطلاح بعد میں نفسیات کی حدود سے نکل کر ادب میں داخل ہوئی اور اس کے اولین نمونے فرانسیسی اور انگریزی ادبیات میں ظاہر ہوئے۔انگریزی ادب میں اس کا پہلا کامیاب تجربہ ڈورتھی رچرڈسن(Dorothy Richardson) نے اپنے معروف ناول''Pilgramage'' کیا تھا ،یہ ناول ۵۱۹۱ءمیں طبع ہوا۔شعور کی رو کے کامیاب تجربات کے حوالے سے جن دیگرناول نگاروں نے شہرت حاصل کی اُن میں جیمس جوائس اور ورجینا وولف اہم ہیں۔ان کے ناول'' Ulyssis''(۲۲۹۱ئ) اور''Mrs.Dalloway''(۵۲۹۱ئ) اس اعتبار سے خاصے ہنگامہ خیز ثابت ہوئے کہ ان پر تنقیدی اور اختلافی مباحث کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔امریکی نوبل انعام یافتہ ادیب ولیم فاکنر(Willaim Faulkner) نے بھی اپنی دو اہم تصانیف''The Sound and the fury''اور '' As I Lay Dying''میں اس جدید تکنیک کو خوب صورتی سے برتا اور یو ںوقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کا ایک ادبی جواز مستحکم ہوتا چلا گیا۔موجودہ عہد تک بہت سے نئے اور پرانے لکھنے والوں نے شعور کی رو پر تجربات کا سلسلہ جاری رکھا اور اس کے توسط سے فکر و احساس کے نئے نئے رنگ متعارف کرائے۔اگر ادبی حوالے سے شعور کی رو کو پرکھا جائے اور اس کی بنیادی صفات کا تعین کیا جائے تو اس کی فہرست بندی میں درج ذیل کلیدی نکات کو نشان زد کیا جا سکتا ہے

 

۔(۱) خیالات اور جذبات کا بہا

 

(۲) انسان کی داخلی اور خارجی قوتوں کا اظہار اور انکشاف جو فرد کی نفسیات پر اثر اندازہوتی ہیں

 

(۳) بیانیہ میں ترتیبی

 

(۴)منطقی ترتیب یا منطقی دلائل کافقدان

 

٥ ) لمبے لمبے جملے جو بالعموم رموزِ اوقاف سے بے نیازی اور بے اعتدالی کی نذر ہو جاتے ہیں)

 

(۶) نثر کی تفہیم میں دشواری

 

(۷) ابہام کی بھر مار

 

(۸) اندرونی خیالات اور احساسات پرکامل توجہ

 

(۹) احساس و جذبے کی تجریدی صورتوں کا بیان

 

(١۰) جملوں کی نحوی ترکیب سے بغاوت

 

(۱۱) قواعدی اور اُسلوبیاتی انحرفات

 

(١٢) نثر کی تفہیم میں رکاوٹیہ تما م نکات اُن لمبی چوڑی بحثوں سے اخذ کیے گئے ہیں جن میں شعور کی رو کے نفسیاتی،فلسفیانہ اور ادبی پہلوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔

 

اب اگر ان تمام نکات کو ملحوظ ِخاطر رکھتے ہوئے نیزمکمل دیانت دار اور غیر جانب داری کے ساتھ”آگ کا دریا“ پڑھا جائے تو اُوپر بیان کردہ ایک صفت بھی اس ناول میں دور دور تک دکھائی نہیں دے گی۔اس پر مستزاد یہ کہ قرة العین حیدر نے بذات خود کسی انٹر ویو یا اپنی کسی تحریر میں شعور کی رو برتنے کا ذکر نہیں کیا۔ہمارے اُردو نقادوں نے اس ضمن میں فقط عمومی بیان ریکارڈ کرانے سے سروکار رکھا ہوا ہے اور آج تک کسی نئے یا پرانے ناقد نے اُصولی دلائل و براہین کی بنیاد پر یہ ثابت نہیں کیا کہ آخر ”آگ کا دریا “ اور شعور کی رو کا آپسی رشتہ کیا ہے؟یہ رشتہ ہے بھی یا نہیں؟اور اگر ہے تو اس ناول کے کون کون سے ایسے حصے ہیں جو شعور کی متعین تعریف پر پورے اُترتے ہیں یا اُتر سکتے ہیں۔” آگ کا دریا “ کو ہمارے ناقدین نے عوام و خواص کے لیے ایک ایسی چیستان بنا دیاہے جس کی تفہیم کارے دارد۔اُردو ناول کی تنقیدی اصطلاحات کم ہونے کی وجہ سے ہماری ناقدین کی ایک عمومی روش یہ بھی رہی ہے کہ وہ مغربی اصطلاحات کو یا تو اپنے من مانے تناظر میں استعمال کرتے ہیں یا پھر بذعم خویش اُس اصطلاح کی حدود کو اتنا وسیع کر دیتے ہیں کہ اُس میں ہر وضعی شئے کو بآسانی سمویا اور پرویا جا سکتا ہے۔شعور کی رو کا معاملہ اسی سہل پسندی کا شکار ہوا ہے۔گمان غالب ہے کہ ” آگ کا دریا“ اپنی طباعت کے بعد جب اولین ناقدوں کے ہاتھ آیا تو اُنھوں نے اس کے محض چند صفحات دیکھ کر ہی اس پر شعور کی رو کا لیبل لگا دیا ہو گا،اورجیسا کہ ہمارے ہاں لکیر پیٹنے کا عام رواج ہے لہٰذا بعد میں آنے والوں نے اسی ٹیڑھی اینٹ پر انتقاد کی عمارت کھڑی کر دی جس کی تزہین و آرائش پر ہنوز کام جاری ہے۔ اُردو کے غیر ذمہ دار نقادوں کے ہاتھوں قرة العین حیدر کو بالعموم اور ” آگ کا دریا“ کو بالخصوص بہت نقصان پہنچا ہے۔ البتہ اچھے نقادوں نے اس کی تفہیم میں آسانیاں بھی پیدا کی ہیں۔اسی اُصول کے تحت اس ناول کے عام قارئین کو بھی ہم دوحصوںمیں تقسیم کر سکتے ہیں۔ پہلے زمرے میں تو وہ قاری رکھے جا سکتے ہیں جن کے بارے میں سکندر احمد اپنے مخصوص انداز میں روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں: ” واقعہ یہ ہے کہ ابھی بھی ایسے قاری موجود ہیں جو خود کو باشعور قارئین کی فہرست میں شامل متصور کرتے ہیں۔اور ”آ گ کا دریا“ کی اہم ترین خصوصیت یہ بتاتے ہیں کہ” ابھی تک نہیں پڑھا۔

 

(۴)اس کے برعکس اچھے قارئین کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ سنجیدہ قاری نے ہی درحقیقت اس ناول کوزندہ رکھا ہوا ہے اسی لیے تو وقفے وقفے سے پاک و ہند کے ناشرین اس اہم ناول کے تازہ اڈیشن شائع کرتے رہتے ہیں۔

 

زیر ِنظر مضمون میں بات شعور کی رو پہ چل رہی ہے تو اس حوالے سے سکندر احمد کا ایک اور تجزیہ ہماری رہنمائی کرتا ہے،اُس پر نظر ڈالنا ضروری ہے:” قرة العین حیدر نے خود فکشن کی شعریات پر مفصل گفتگو کی ہے اور کہیں شعور کی رو کاذکر نہیں کیا ہے۔ ”آ گ کا دریا“ میں مقتبس حوالوں کے علاوہ ایسے حصے موجود ہیں جن کے ڈانڈے فکشن کی شعریات سے ملائےجا سکتے ہیں۔دیگر شعور کی رو کے عناصر،,Time MontageFree Association,Interior Monologue , Multiplicity of Narrators کا اطلاق ” آگ کا دریا“پرنہیں کیا جا سکتا،زمانی مونتاژ تو ہے ہی نہیں۔

 

(۵)یہ اقتباس معنوی اعتبار سے خود مکتفی ہے اور اس کی مزید تشریح و توضیح محض تکلف ہے۔اصل میں” آگ کا دریا “ کا مطالعہ پہلے سے طے شدہ اصطلاحات کی روشنی میں کیا جا تا رہا ہے جس کی وجہ سے یہ ناول اپنی صفات متعارف کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکا کیوں کہ اسے ہمارے نقادوں نے موقع ہی فراہم نہیں کیا ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ بجائے” شعور کی رو“ کو سامنے رکھ کراس ناول کا مطالعہ کیا جائے کیوں نہ” آگ کا دریا“ کو سامنے رکھ کر ”شعور کی رو“ کو پرکھ لیا جائے۔ پرکھ کایہ انداز مختلف نتائج سامنے لاتا ہے اور شعور کی رو کا قضیہ بخوبی حل ہو جاتا ہے۔یہ ناول تاریخ اور فلسفہ ءتاریخ کا حسین مرقع بھی ہے جس میں ڈھائی ہزار سالہ تاریخ کو ایک منطقی تسلسل کے ساتھ پیش کرنے کا خوب صورت اور کامیاب تجربہ کیا گیا ہے۔ ناول عہد ِ قدیم سے شروع ہوتا ہے، کچھ عرصہ یہاں کی مرقع نگاری کے بعد عہد ِ وسطیٰ اور انگریزی دور ِ حکومت کی سیر کراتا ہے اور آخرش جدید ہندوستان او ر پاکستان پر اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔ اگر اس کی موضوعاتی وسعت پر نظر کی جائے تو اُس میں حیرت انگیز تنوع دکھائی دیتا ہے۔یہاں تاریخ،فلسفہ،تصوف،موسیقی، اداکاری،ناٹک، رس، ادب،مذاہب ِعالم،ذات پات، سماج میں عورت اور مرد کی حیثیت اور کردار کے علاوہ زمان و مکاں پر تفصیلی اور ادق مباحث ملتے ہیں۔ یہ تمام موضوعات ناول کے پلاٹ میں اس طرح رچے بسے نظر آتے ہیں کہ ان سے منسلکہ تمام کردار اور مناظر وحدت تاثر کی کامل تصویر بن جاتے ہیں۔ اس ناول کا بیانیہ تین مرکزی کرداروں پر منحصر ہے جس میں ہری شنکر،کمال اور طلعت نمایاں ہیں۔ناول میں واحد متکلم بیانیہ کا سہارا نہیں لیا گیا۔ اس کے برعکس ” آگ کا دریا “میں بیانیہ کی جو اچھوتی صورت ہمارے سامنے آتی ہے اُس کے بارے میں سکندر احمد رقم طراز ہیں:” آ گ کا دریا“ کا راوی واقعی عالم کُل ہے۔ جو بیک وقت فلسفی بھی اور محقق بھی،وہ تاریخ داں بھی ہے اور وقائع نویس بھی۔وہ موسیقی کے رموز و نکات سے بھی واقفہے۔وہ بوطیقا نواز بھی ہے اور بوطیقا نویس بھی۔اُسے عمرانیات کا بھی علم ہے اور وہثقافتی تسلسل کا بھی جانکار ہے۔اس نے پتنجلی کی مہا بھاشیہ بھی پڑھ رکھی ہے اور پانینیکی اشٹا دھیائی گھونٹ کر پی رکھی ہے وہ ویدوں کا گیانی بھی ہے اور اپنشدوں کا ماہر بھی ہے۔

 

 (۶)قرةالعین حیدر نے ان تمام علمی ادبی معاملات کو ایک خاص زمانی ترتیب کے ساتھ اور اعلیٰ ادبی زبان میں پیش کیا ہے۔زبان و بیان کا قرینہ معیاری ہونے کے ساتھ ساتھ ابلاغ کے تمام تقاضے پورے کرتا ہے۔ایک ایک جملہ اپنی تمام تر معنویت کے ساتھ قاری کا استقبال کرتا ہے۔اتنے ضخیم ناول میں ابہام کا معمولی سا شائبہ بھی نہیں ملتا۔ معروف ہندوستانی نقاد پروفیسر لطف الرحمن کا کہنا ہے:” تاریخی شعور،زمانی تسلسل اور تہذیبی آویزش و آمیزش کا ادراکان کی جمالیاتی حس کے روشن آفاق کی حیثیت رکھتا ہے

 

(۷)ایک عام قاری بھی اس ناول کو پڑھ کر حظ اندوز ہو سکتا ہے۔اگر اس میں شعور کی رو موجود ہوتی تو آج تک اس ناول کے قارئین اور ناقدین بس اسی بات کی کھوج میں مصروف رہتے کہ قرة العین حیدر کے اس ناول کا اصل موضوع کیاہے؟اس حقیقت کو مان لینے میںکوئی حرج نہیں کہ ” آگ کا دریا“ کا شعور کی رو سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اس ناول میں نظم و ضبط کا اتنا خاص اہتمام ملتا ہے کہ تاریخ کا ڈھائی ہزار سالہ تناظر بھی اس کی زمانی وحدت کو متاثر نہیں کر سکا۔ہر شئے،ہر واقعہ،ہر منظر،ہر کردار اور ہر علمی بحث اپنے پنے مقام پر اس طرح موجود ہے جیسے دیوار کی ایک اینٹ پر دوسری اینٹ رکھی جاتی ہے۔رموز و اوقاف کا گہرا شعور سارے متن میں تفہیمی سلسلہ بحال رکھتا ہے۔ورجینا وولف تو کہیں بیس بیس اور تیس تیس صفحوں کے بعد وقفہ یا ختمہ لگاتی ہے ،کچھ یہی حال جیمس جائس کا ہے۔”آگ کا دریا“ ایسے تمام عوارض سے یکسر پاک ہے۔اس ناول کی جائز اور راست تحسین کے لیے ضروری ہے کہ اس میں موجوداُسلوبیاتی اور تکنیکی تنوع کو سمجھا جائے۔نند کشور وکرم کا کہنا بجا ہے:” اس ناول کے اُسلوب میں ایسی جدت و ندرت ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔کئی طرح کی تکنیکوں کو بروئے کار لایا گیا ہے۔کہیں قدیم ناٹکوں کے اُسلوبکاا ستعمال کیا گیا ہے تو کہیں جدید تھیٹر کا،اور پھر برِ صغیر کے وسیع تاریخی،تہذیبی،تمدنی اور معاشرتی کینوس پر پھیلے اس ضخیم ناول میں ایسی تصویریںپیش کی گئی ہیں جو قاری کے دل میں نقش ہو کر رہ جاتی ہیں۔

 

(۸)اب آخر میں ” آگ کا دریا“ سے چند مقامات پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں جو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ اس ناول کا شعور کی رو سے دور کا بھی کوئی رشتہ ناطہ نکالنا درست نہیں:” اونچائی اور نیچائی محض ذہنوں کے فرق سے ہوتی ہے۔

 

(۹)” باسٹھ مختلف نظریے۔۔۔اور زندگی ایک ہے۔۔۔۔اور انسان تنہا ہے

 

۔“(۱٠) ” وقتی طور پر جو باتیں ہم کو قیامت معلوم ہوتی ہیںوقت گزرجانے کے بعد خیال آتا ہےہم کس قدر بیوقوف تھے کہ یوں مضطرب ہوئے

 

(۱۱)بخوفِ طوالت مزید مثالیں نقل نہیں کرتا ورنہ اِن تین مثالوںکی مدد سے بھی اس بات کابآسانی تعین کیا جا سکتا ہے کہ ” آگ کا دریا“ میں شعور کی رو کا عمل دخل ایک فیصد بھی نہیں ہے۔

 

حوالہ جات

(۱) شمس الرحمن فاروقی،قرة العین حیدر کی یاد میں:دریا بکنار ِ دگر افتاد و گہر ماند(مضمون)مشمولہ،اُردو دنیا،نئی دہلی،جلد ۹،شمارہ ١۰،اکتوبر ٧ ٢۰۰،ناشر قومی کونسل برائے فروغِ اُردو،دہلی،ص ۸

 william James,The Principles of Psycholgy,Forgotten Books,1931,p No,451(2)(۳) یہ حوالہ انٹر نیٹ کے ایک مضمون سے ماخوذ ہے۔اس انگریزی مضمون کا نام ہے''stream of consciousness'' مزید تفصیل کے لیےپر دیکھا جا سکتا ہے۔(۴) سکندر احمد،قرة العینیت(مضمون)مشمولہ، سہ ذہنِ جدید،شمارہ،۳۵،جلد ۹۱،مارچ تامئی،۹۰۰۲ئ،ص۴۹(۵) سکندر احمد،قرة العینیت(مضمون)مشمولہ، سہ ذہنِ جدید،شمارہ،۳۵،جلد ۹۱،مارچ تامئی،۹۰۰۲ئ،ص۸۹۔۷۹(۶) سکندر احمد،قرة العینیت(مضمون)مشمولہ، سہ ذہنِ جدید،۹۹(۷) لطف الرحمن،قرة العین حیدر: ادیبوں کے تاثرات،حسن نعیم،مشمولہ،اُردو دنیا،جلد،۹،شمارہ ،۰۱،اکتوبر،۷۰۰۲،ص۱۱(۸) نند کشور وکرم، قرة العین حیدر اور ” آگ کا دریا“(مضمون)مشمولہ، اُردو دنیا،جلد،۹،شمارہ ،۰۱،اکتوبر،۷۰۰۲،ص۷۱(۹) قرة العین حیدر،آگ کا دریا،سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۰۱۰۲ئ،ص١۰(۰۱) قرة العین حیدر،آگ کا دریا،سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۰۱۰۲ئ،ص۱۱(۱۱) قرة العین حیدر،آگ کا دریا،سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۰۱۰۲ئ،ص۳۲۲

Post a Comment

3 Comments