Advertisement

Main Ad

ڈاکٹر عامر کے چند الفاظ



ڈاکٹر عامر کے چند الفاظ

 

Dr Muhammad Altaf Yousofzai, Dr Aamir

ڈاکٹر الطاف یوسف زئی صاحب میرے استاد،پی ایچ ڈی کے نگران اور دوست ہیں۔ان کی وجہ سے ہزارہ یونیورسٹی میں میرے تمام تعلیمی مراحل ہمیشہ بروقت اور خوش اسلوبی سے طے ہوتے رہے۔آج میں ہزارہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں ڈاکٹر صاحب کو اپنی کتاب پیش کرنے گیا تھا۔انھوں نے بڑے والہانہ انداز سے کتاب کا تحفہ وصول کیا اور مزید لکھنے کی تحریک دی۔ڈاکٹر الطاف یوسف زئی صاحب بذات خود بہت اچھے نقاد ،محقق اور مترجم ہونے کے ساتھ ساتھ سفرنامہ نگار بھی ہیں۔حال ہی میں انھوں نے مختار مسعود کی شہرہ آفاق تصنیف"آواز دوست" کا پہلی پشتو ترجمہ کیا ہے۔یہ کتاب چھپ کر مارکیٹ میں آ چکی ہے۔ڈاکٹر الطاف یوسف زئی صاحب باکمال شخصیت کے مالک ہیں اور اپنے طلبہ کو ہر وقت نئے نئے موضوعات پر سوچنے اور لکھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔میرے ساتھ ڈاکٹر صاحب کی خصوصی شفقت تھی اور اکثر اس بات کا گلہ کرتے تھے کہ میں اتنی دیر کے بعد کیوں پی ایچ ڈی کی طرف آیا،وہ بار بار از راہ تفنن مجھے کہتے کہ "عامر صاحب آپ کے ٹوکن شارٹ ہیں"۔قرہ العین حیدر کے حوالے سے اسلوبیات کا موضوع بھی ڈاکٹر صاحب کا تجویز کردہ تھا ان کا کہنا تھا کہ یہ تکنیکی موضوع خاصا پیچیدہ ہے  لیکن اگر یہ مکمل ہو گیا تو اردو میں عینی آپا پر اطلاقی اور نظری حوالے سے ایک نیا تحقیقی اور تنقیدی کام سامنے آ جائے گا۔آج جب یہ کام کتابی صورت میں سامنے آیا اور جس انداز سے پاکستان اور پاکستان سے باہر احباب اس کتاب کی پذیرائی کر رہے ہیں اس کا تمام تر کریڈٹ ڈاکٹر الطاف یوسف زئی صاحب کو جاتا ہے۔میری خوش نصیبی تھی کہ دوران تحقیق ڈاکٹر روبینہ شاہین صاحبہ(جو ڈاکٹر الطاف یوسف زئی صاحب کی استاد بھی ہیں اور میرے مقالے کی بیرونی ممتحن) سے بھی رابطہ رہا جنھوں نے کئی ایسی کتابوں کی نشاندہی فرمائی جو میرے علم میں نہیں تھی اس کے علاوہ مفید مشورے بھی ملتے رہے جس کی وجہ سے میرے کام میں آسانی اور سہولت پیدا ہوئی۔لطف کی ایک بات یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر الطاف یوسف زئی صاحب، ڈاکٹر روبینہ شاہین صاحبہ اور میں اصل میں ڈاکٹر صابر کلوروی کے قریبی شاگردوں میں سے بھی ہیں۔حسن اتفاق سے ہم تینوں میں بھی شاگرد در شاگرد کا مستحکم رشتہ بھی قائم ہے۔


Post a Comment

0 Comments