Advertisement

Main Ad

جامع الازہر مصر اور یاد دریچہ


جامع الازہر مصر  اور یاد دریچہ

ڈاکٹر محمد الطاف یوسفزئی

 

نماز کے بعد مسجد کے ستونوں کو ٹیک لگائے علماء مختلف ٹولیوں میں بیٹھے اپنے شاگردوں کو علم دینے میں مشغول ہوگئے ہرمعلم کے لئے ستون کے ساتھ ایک کرسی بھی رکھی گئی تھی جس پر اس معلّم کا نام درج تھا۔ مسجد اور اس میں بچھی قیمتی قالینوں کی صفائی اور دھول چٹائی جدید مشینوں سے کی جا رہی تھی مسجد کے اندر وائی فائی کے بوسٹر جگہ جگہ نصب تھے۔ جیب کتروں سے ہوشیار رہیں۔۔۔ اپنے جوتوں کی حفاظت خود کیجئے اور اپنے موبائل بند کیجئے۔۔۔۔ جیسے تنبیہی بورڈ اور اشتہار یہاں مفقود تھے۔ قریبی ستون سے ٹیک لگائے ایک عالم  "وانتم الاعلونہ ان کنتم مؤمنین"کے موضوع پردرس دے رہا تھا۔ گفتگو اس بات پر ہو رہی تھی کہ دین و دنیا کی کامرانی تب ملے گی جب تم مومن بنو۔ مسافر کو شاگردوں کی بیٹھک میں آخری صف میں جگہ ملی۔ مولوی صاحب کی باتیں عربی زبان میں تھیں مگر دل اور دماغ کو متاثر کر رہی تھی میں نے دل و دماغ کو ان کے وائی فائی بوسٹر سے منسلک کیا اور گھنٹہ ڈیڑھ اپنے روح و جسم کے خالی ان بکس کو ان کے منطقی گفتگو سے بھرنے لگا۔ دکتور محمود اس دوران میری عکس بندی کرنے میں مصروف رہے  اور درس کے اختتام پر کہنے لگے دکتور الطاف  تم بھی "الازہری" بن گئے مبارک ہو۔ میں نے کہا کاش ایسا ہوتا۔ "الازہری" بننا بہت بڑا اعزاز ہے مگر میں نے ایسے "الازہری" بھی دیکھے ہیں جو لاالہ کی نہ خبر گیری رکھتے ہیں اور نہ اپنے آپ کو مسلمان کہنے پر لرزتے ہیں وہ صرف نام کے "الازہری" ہیں۔ ایک دانہ نے کیا اچھی بات کہی ہے کہ جامعاتی اور رسمی تعلیم کا حکمت و دانش سے کوئی علاقہ نہیں۔ فکر و نظر کا بھی تعلیمی اسناد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سند یافتگی اور ہنروری کی منزلیں جدا ہیں۔ درسی تعلیم کی اہمیت اپنی جگہ مگر ان منزلوں کے راستے اور ہیں۔ سنگلاخ اور دشوارگذار۔۔۔۔ تلوے چھلنی ہوجاتے ہیں جسم چُور چُوراور پسینے پسینے ہو جاتا ہے۔ جسم ایک آرام طلب ذات ہے۔ کسب کمال کے لیے اسے بے آرام ہونا پڑتا ہے۔جب عزیز جہاں شوی کی منزل آتی ہے اور آدمی مڑ کر دیکھتا ہے تو حیران ہو جاتا ہے ذرا سی بے آرامی اور اس کا اتنا بڑا صلہ۔ قدرت کتنی فیاض ہے۔انسان کتنا نا سمجھ ہے۔




Post a Comment

0 Comments